جمعہ، 29 مئی، 2020

اکیسویں صدی کے خرابے میں داغ کی شاعری کی معنویت
اکیسویں صدی کی شناخت کیا ہے؟ یہ ایک مشکل سوال ہے، کیا اس کی کوئی ایک شناخت ممکن ہے؟ چلو ایک شناخت نہ سہی ، کیا چند ایسی صفات ہو سکتی ہیں؟ جن سے اکیسویں صدی عبارت ہے؟ یا جن سے اکیسویں صدی کی شناخت ممکن ہے- اگر ایسا ممکن ہو سکے تو اس میں داغ کی شاعری کی معنویت کا تعین بھی ممکن ہو سکتا ہے- ظاہر ہے میں کوئی نجومی نہیں ہوں، اور نہ ہی نجوم میں میری کوئی دلچسپی ہے، میں جو بھی معروضا ت پیش کروںگا ، ان کی بنیاد اب تک گزر چکی تقریباً ڈیڑھ دہائی کے تجربات پر مبنی ہوں گے – میرے خیال سے اکیسویں صدی کی ان صفات میں جو اب تک زیادہ نمایاں رہی ہیں ، ان میں سے ایک ہے سرمایہ داری نظام اور کھلا بازار، جس نے انسانی حرص و ہوس کی ساری حدیں توڑ دی ہیں، حد سے بڑھی ہوئی صارفیت سے استعمال کرو اور بھول جاؤ ، کا رویہ انسانی سرشت میں شامل ہوتا جا رہا ہے، اس صورت حال میں انسانی رشتے بھی پامال ہو کر رہ گئے ہیں، اور اس کی جگہ ایک قسم کی خود غرضی نے لے لی ہے- اکیسویں صدی کی ایک اہم صفت تکنیک کا غیر معمولی اور کئی دفعہ غیر ضروری استعمال کا بڑھ نا ہے، میں تکنیک کے خلاف تو نہیں ہوں، لیکن اگر تکنیک کے ساتھ ساتھ انسان کا فکری ارتقا نہ ہو تو نہ جانے کتنے توہم فتنہ بن کر سماج میں پھیل جاتے ہیں، تکنیک کے ساتھ ساتھ جہاں فکر و خیال کا فروغ ہونا چاہیے تھا، اس معاملے میں ہم بات بات پر پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں، ہم سائنسی مزاج بھی نہیں اپنا سکے - تکنیک کے ساتھ فراخ دلی کا فروغ ہونا تھا، لیکن ہم تکنیک کا استمال تنگ نظری پھیلانے میں کر رہے ہے، آج ہم لوگ گڑے مردے اکھاڑ رہے ہیں جو نفرت کا باعث بن رہے ہیں، آج کل تکنیک کا ایک اور استعمال بہت بڑھ گیا ہے وہ یہ کہ ہر کام میں شارٹ کٹ تلاش کیا جا رہا ہے ، در حقیقت تکنیک کا تو کام ہی ہے کہ وہ انسان کو آسانی فراہم کرے، لیکن جب یہ آسانیاں انسانی اعلی قدریں کی شرط پر حاصل ہوں تو یہ لمحہ فکریہ بن جاتا ہے، انسانی ارتقه انسان کی بے لوث خدمات، قربانی اور انسانی جنون کا نتیجہ ہے، لیکن اب یہ ساری قدریں قصّۂ پارینہ بنتی جا رہی ہیں- بس ایک آدھ ستارے کہیں کہیں جگمگہ رہے ہیں، اروم شرمیلہ بھی اکیسویں صدی کی ہی دیں ہیں، جنھوں نے قربانی کی ایسی عظیم مثال پیش کی ہے، کہ تاریخ میں ایسی مثالیں کہیں نظر نہیں آتیں، لیکن وہ اکیسویں صدی کی نمائندہ آواز نہیں ایک کرشمہ ہیں- موضوع کے لحاظ سے ایک سوال یہ آٹھ سکتا ہے کہ اکیسویں صدی تو ٹھیک ہے لیکن اکیسویں صدی کے خرابے میں کیوں؟ تو اس سلسلے میں بس اتنا عرض کرنا ہے کہ ممکن ہے ، اکیسویں صدی میں کچھ لوگ بہت کامیاب بھی ہوں ، لیکن مجموعی طور پر یہ انسان اور انسانیت کے لیے یہ کوئی اچھی صورت حال نہیں ہے، اب ایسے میں اکیسویں صدی کی جو تصویر ابھرتی ہے اسے خرابہ نہ کہیں تو کیا کہیں؟ اکیسویں صدی کی اس تصویر کے بعد میں سمجھتا ہوں، داغ کی شاعری کی معنویت کی بہت زیادہ توقع نہیں رہ جاتی ہیں، لیکن پھر بھی ہمیں اس کا معروضی جائزہ لینا چاہیے ہے، پہلے سے نظریہ نہیں بنا لینا چاہیے - داغ دہلوی اور امیر مینائی کے بارے میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ امیر مینائی نے داغ سے عرض کیا کہ ہم دونوں ایک ہی زمین میں، ایک ہی زبان میں، ایک ہی قوافی میں اور ایک سے مضامین پر شعر کہتے ہیں، پھر میری غزلوں میں تمہارے جیسا چٹخارہ کیوں نہیں آتا؟ داغ نے پوچھا کہ مولانا کبھی کسی طوائف سے عشق فرمایا ہے؟ امیر نے کہا - لا حول ولا قووتہ - داغ بولے جورو کا عاشق ہی غزل کہہ سکتا ہے، جیسی آپ کہتے ہیں- میں اس بات کا پوری طرح سے تو قائل نہیں ہوں، کہ کسی خاص طرح کی شاعری کے لیے کسی خاص طرح کے تجربے سے گزرنا ضروری ہے، یہ تو اس کے تخلیقی ذہن رسا پر منحصر ہے کہ وہ کس تجربے کو کس طرح بیان کرتا ہے، لیکن اس بات سے ایک بات واضح ہے، کہ داغ کی شاعری میں ایک مخصوص قسم کا چٹخارہ پایا جاتا ہے، اور یہ چٹخارہ ایسا ہے کہ امیر مینائی بھی اپنی شاعری میں لانا چاہتے ہیں. جہاں تک سوال اکیسویں صدی میں داغ دہلوی کی شاعری کی معنویت کا ہے تو سب سے پہلے یہ سوال اٹھتا ہے کس کے لیے معنویت ؟ ان لوگوں کے لیے داغ کی معنویت جن کے لیے اردو شاعری کا مطالعہ ایک قسم کے پیشہ کی طرح ہے، چاہے وہ اردو درس و تدریس سے وابستہ ہوں، یا وہ اردو درس و تدریس سے وابستہ نہ ہوں لیکن اردو شاعری کا مطالعہ پیشہ ور انداز سے کرتے ہیں، چاہے وہ اردو شاعری کی تنقید و تحقیق سے منسلک ہوں یا وہ خود شاعر ہوں – اس طرح وہ شاعری کا مطالعہ پیشہ ور انداز سے کرتے ہیں- ایسے لوگوں کے لیے داغ کی معنویت مسلم الثبوت ہے، کہ اردو شاعری اور خاص طور سے غزل کی کوئی بھی تاریخ داغ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی – پوری اردو شاعری کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو ایک شیڈ یقیناً ایسا ہے جو صرف داغ سے مخصوص ہے- معاملات عشق میں ایسی چھیڑ چھاڑ ، التفات کی ایسی کیفیتیں ایسی صاف شفّاف اور رواں زبان میں اور کہیں نہیں ہے- جب میں نے داغ کی ان صفات پر غور کیا کہ وہ اس طرح کی کفیات کیسے تخلیق کرتے ہیں؟ تو میری نظر سب سے پہلے داغ کے راوی پر ٹھہری، اردو شاعری میں اگر کوئی واضح دوسرا راوی نہ ہو تو عام طور پر اس کا راوی عاشق ہوتا ہے، اور بیشتر تیسرا شخص غائب راوی ہوتا ہے، لیکن اس سلسلے میں داغ نے جتنے تجربے کیے ہے، مجھے نہیں یاد آ رہا ہے کہ اردو میں کسی بھی دوسرے شاعر نے راوی کے لیکر اتنے تجربے کیے ہوں، اکیسویں صدی میں جب کہ صوتی و بصری میڈیا کا اتنا فروغ ہو رہا ہے یہ بات اور منی خیز ہو جاتی ہے- داغ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں- ہوتی ہے دیکھنے کے لیے آنکھ میں نگاہ دیکھو ... تمہاری آنکھ ہے ... میری نگاہ میں خیال یار یہ کہتا ہے مجھ سے خلوت میں تری رفیق بتا اور کون ہے ... میں ہوں؟ غیروں سے التفات پہ ٹوکا تو یہ کہا دنیا میں بات بھی نہ کریں کیا کسی سے ہم کیا کہا ... پھر تو کہوں... ہم نہیں سنتے تیری نہیں سنتے ... تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں میرا خیال ہے داغ کی معشوقہ جس طرح سے خود گویا ہے، اس سے قبل اردو شاعری میں معشوقہ خود کبھی بولتی ہوئ اس طرح نظر نہیں آئ - غزل میں ایسا مکالماتی انداز بھی کہیں نظر نہیں آتا، ایک آدھ شعر دوسرے شاعروں کے یہاں کبھی کبی مل جاتے ہیں لیکن اتنی بڑی تعداد میں اور ایسی زندگی سے بھری جسے ہم انگریزی میں لاۓو کہتے ہیں کہیں اور نظر نہیں اتی، اور یہ جو ہم داغ کی شاعری میں شوخی اور چھیڑ چھا ڑ کی بات کرتے ہیں، در اصل ان کا یہ اسلوب ان کے رونی نے تخلیق کیا ہے- ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو مکتبی ضرورت کے تحت داغ کا مطالعہ کرتے ہیں اور بیشتر نصابی ضرورت کے تحت ہی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کے لیے داغ کا مطالعہ کبھی ضروری ہے بھی اور کبھی ضروری نہیں بھی ہے، بہت سے کالجوں اور دانشگاہوں میں دا غ کی شاعری خاس طور سے غزلیں پڑھائی جاتی ہیں، اور بہت جگہ نہیں بھی پڑھائی جاتی ہیں، اگرہمیں اردو کے دس غزل گو شعرا کو شامل نصاب کرنا ہو تو داغ کو شامل کرنا کیا لازمی ہوگا؟ میرا خیال ہے کہ اگر داغ کو شامل کر لیا جاۓ تو بہتر ہوگا لیکن اگر نہ بھی کیا جائے تو داغ کے بغیر اردو غزل کا کاروبار بند بھی نہیں ہو جاےگا – اس کی وجہ یہ ہے کہ داغ جس کلاسیکی غزل کی نمائندگی کرتے ہیں ہم اس غزل کو عام طور پر غالب پر ختم مان لیتے ہیں، اس کے بعد ہم غزل میں نئے رجحانات کی بات کرتے ہیں، اس لیے داغ کی غزلوں کو کئی بار نمائندہ شعرا کے نصاب میں جگہ بنانا مشکل ہو جاتا ہے، لیکن اکیسویں صدی میں ایک بات داغ کی حمایت میں چلی جاتی ہے کہ اگر کلاسیکی شاعر کا تعارف کرانا ہے، اور طالب علم کم علم ہیں جو کہ اکثر ہوتے ہیں ، تو داغ معاون ہو سکتے ہیں، کیونکہ داغ تمام اہم کلاسیکی شاعر وں میں سب سے آسان شاعر ہیں، یہ آسانی ان کی زبان کی وجہ سے بھی ہے، اور ان میں جو تصورات پیش کیے گئے ہیں وہ بھی عام طور آسان ہیں، کلاسیکی شاعروں میں داغ کی شاعری بہت کم فارسی آمیز ہے، لیکن ان سب کے باوجود داغ کلاسیکی شاعری کی بھر پور نمائندگی کرتے ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ استاد ذوق کے شاگرد تھے، ساتھ ہی انھیں غالب مومن، ظفر اور شیفتہ وغیرہ شعرا کی صحبت کا بھی انھیں شرف حاصل تھا- ایسے لوگوں کے لیے داغ کی شاعری کی معنویت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ اکیسویں صدی کی اس خرابے نے انہیں اس بات کی کبھی مہلت نہ دی کہ وہ کبھی کبھی ادب کا مطالعہ کرتے رہیں، وہ کسی دوسرے پیشے میں ہیں اور اسی دنیا میں پوری طرح مصروف ہیں، بس کبھی کبھی انھیں اپنی تہذیبی شناخت کا مسلہ پریشان کرتا ہے، ان کی مادری زبان عام طور پر اردو ہے، یا مادری زبان اردو نہیں بھی ہے، لیکن اردو زبان و ادب نے انہیں متاثر تو کیا ہے ان کے دل میں اردو زبان و ادب کے لیے نیک جذبہ تو ہے لیکن روزگار زمانہ نے انہیں کبھی ایسی مہلت نہ دی کہ وہ کے لیے جو وقت درکار ہے ، اتنا وقت وہ دے سکیں، ایسے لوگ کبھی کبھی غزل یا قوالی سن لیتے ہیں، ایسے لوگوں کے پاس داغ کے چند اشعار کبھی نہ کبھی پہنچ ہی جاتے ہیں- مثلا داغ کے وہ اشعار جو ضرب المثل بن چکے ہیں- خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ ہندوستاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے رخ روشن کے آگے رکھ کے شمع وہ یہ کہتے ہیں ادھر جاتا ہے دیکھو یا ادھر آتا ہے پروانہ آخر میں بس ایک بات کہہ کر اپنی بات ختم کرنا چاہوںگا ایسے لوگوں کے لیے داغ کی معنویت بہت زیادہ ہے جو غزل گائیکی سن کر اپنی تہذیبی تشخص کی تسکین کرتے ہیں، غزل گائکوں کے لیے داغ ہمیشہ سے بہت بڑے شاعر رہے ہیں، کیونکہ داغ کی شاعری میں وہ تمام عناصر پاۓ جاتے ہیں جن کی توقع غزل گائیک کرتے ہیں، جیسے غزل میں غنایت بھر پور ہونی چاہیے ، گائیکی ایک مظاہرا تی فن ہے، اس لیے اسے سمجھنے میں زیادہ دقت نہیں آنی چاہیے، نہ زبان کی سطح پر نہ اس میں پیش کیے گئی تصور میں، داغ کی شاعری کی ایک اور خوبی ہے جس کی وجہ سے گائیک انہیں بہت پسند کرتے ہیں، وہ داغ کی شاعری کا راوی ہے، حب کسی شعر میں ایک سے زیادہ راوی ہوتے ہیں، یا مکالمہ ہوتے ہیں، تو غزل گائیکی میں ایک زندہ ماحول بن جاتا ہے، اسی خوبی کی وجہ سے داغ کو بیگم اختر، مہدی حسن، غلام علی، محمد رفیع تقریبا ہر اہم گلوکار نے گیا ہے، اس طرح سے بھی داغ کی معنویت میں اکیسویں صدی میں بھی قائم ہے، لیکن کیا کیا جاۓ کہ اکیسویں صدی میں ادب کی ہی جب اہمیت بہت کم رہ گئی ہے، تو داغ کی معنویت پر بھی سوال اٹھیں گے - Dr Rizvanul Haque, Assistant Professor, Urdu, Regional Institute of Education, Shyamla Hills, Bhopal-462013

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں