اتوار، 26 جولائی، 2020

کانٹا
QUIM MONZO
ترجمہ:رضوان الحق
‎‎

[قیوم منزو (Quim Monzo)ہمیشہ سے کبھی بیانیہ فکشن اور کبھی مضامین لکھتا رہا ہے۔ وہ اکثر لا وسنگارمیا اخبار کے لیے لکھتا ہے۔ اس کا پہلا افسانوی مجموعہ” ارے! اس نے کہا” 1978 میں شائع ہوا تھا۔ اِس کے بعد اس کے مجموعے ہیں ، "یہ سب کیوں "(1993)”گڈلاجارا” (1996) اور” تین کرسمس” (2003)۔ 2004 میں اس نے مختصر تر بیانیہ فکشن "چھیاسی کہانیاں ” میں ایک ساتھ جمع کیا۔ اس کا ایک ناول 1983 میں "بینزین” کے نام سے شائع ہوا، یہ ناول مابعد جدید فن کے خالی پن اور بے معنویت پر مبنی ہے۔ اس کا ایک اور ناول المیہ کا گھٹیا پن 1989 میں شائع ہوا جو ایک ایسے کردار کے کلیشے سے کھیلتا ہے جس کی حیات کے بس گنے چنے دن باقی ہیں ۔ اس کے صحافتی مضامین کے تین مجموعے ہیں "ززز۔ ۔ ۔ ” (1987)، "سب جھوٹ ہے” (2000) اور” موضوع کا موضوع” (2003) شائع ہو چکے ہیں جن کا مطالعہ کرنے سے پچھلی دو دہائیوں پر ایک وسیع نظر پڑتی ہے۔ منزو نے Capote, J.D. Salinger, Bradbury, Hardy, Hemingway, Barth, Miller وغیرہ مصنفین کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ اسے کئی انعامات سے نوازا جا چکا ہے۔ جن میں ادب کا قومی انعام Prudenci Bertrana انعام برائے ناول خاص ہیں ۔ The Crítica Serra d’Or انعام اسے ایک سے زیادہ بار مل چکا ہے۔ اس کی تقریباً تمام کتابیں Quaderns Crema ویب سائٹ پر موجود ہیں اور 20 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں ۔ اس کی تازہ ترین کتابGasoline کا انگریزی ترجمہ جلد ہی شائع ہونے والا ہے۔ زیر نظر دونوں کہانیوں کا اردو ترجمہ، ہسپانیہ کی ایک مقامی زبان کٹلان سے لیزا ایم ڈلمان (Lisa M. Dillmanکے انگریزی ترجمہ پر مبنی ہے۔ ]



یہ واقعہ اپریل ماہ کے ایک خوشگوار اتوار کا ہے۔ قصبے کے ایک ہوٹل میں ، جو پہاڑ کی دہلیز پر واقع ہے، اس پہاڑ کی چوٹی پر ابھی بھی برف جمی ہوئی تھی۔ دوپہر کے کھانے کے وقت ابھی جب کہ بیشتر میزیں خالی تھیں ۔ دو جوڑے جن کی عمر ساٹھ کے قریب رہی ہو گی، ہوٹل میں داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک آدمی کھانے کے ہال میں داخل ہوا اور کھیل کا اخبار پڑھنے میں منہمک ہو گیا۔ اتنی بات تو واضح تھی کہ وہ اس ہوٹل میں اکثر آتے ہیں کیونکہ انھوں نے مالکن سے غیر رسمی طریقے سے سلام و پیام کیا، گالوں کو بوسہ دیا اور کہا بہت دنوں سے آپ نظر نہیں آئے۔ "نہیں ! صرف مقدس ہفتہ سے نہیں آئی ہوں ۔ ” ان میں سے ایک عورت نے اداکاری کے انداز میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے بچوں کے بارے میں بات کی، ان کی بات سے واضح تھا کہ وہ بہت اچھے ہیں ۔ اس کے بعد مالکن نے مسکراتے ہوئے اشارہ کیا کہ آپ کے لیے جگہ محفوظ رکھی گئی ہے۔ یہ ایک مستطیلی میز تھی۔ جو کمرے کی ایک سمت میں بند تھی۔ ایک عورت نے دیوار کے سامنے کی کرسی پسند کی، جب کہ دوسری عورت نے اس کے سامنے کی کرسی پسند کی۔ ان کے شوہر بھی آمنے سامنے بیٹھ گئے لیکن وہ ہال کی طرف تھے۔

اور پھر، ابھی جب کہ وہ کھڑے اپنی جیکٹ ہی اتار رہے تھے کہ ان میں سے ایک عورت نے حادثاتی طور پر اپنی باہوں سے اپنا کانٹا سرکایا جس سے وہ خاموشی سے زمین پر گر گیا، اگرچہ کھانے کے ہال میں کچھ لوگ موجود تھے لیکن پائپ کی موسیقی میں کانٹے کے گرنے کی آواز دب کر رہ گئی، ساتھ ہی باورچی خانے سے بھی آوازیں آ رہی تھیں ۔ اس لیے کانٹا گرنے کی آواز کو باقی تینوں نہ سن سکے۔ دوسرا جوڑا اب دیوار کی طرف مڑ چکا ہے اور فریم میں لگی تصویریں دیکھ رہا ہے، یہ تصویر ایک پیلی صبح کے پس منظر میں ایسی شاہ راہ کی تھی، جس کی دونوں طرف مخروطی پودے قطار میں لگے ہوئے تھے۔ اس عورت کا شوہر جس نے کانٹا گرایا تھا ابھی بھی کھیل کا اخبار پڑھنے میں محو تھا۔

عورت تیزی سے بڑھی اور اس نے جھک کر کانٹا اٹھا لیا، لیکن اسے میز پر ایک کنارے رکھنے کے بجائے کہ جس سے ویٹر اسے واپس لے جائے اور ایک صاف کانٹا لے آئے۔ اس نے اپنے شوہر کی پلیٹ سے کانٹا اٹھا کر اپنی پلیٹ میں رکھ لیا اور زمین سے اٹھائے ہوئے کانٹے کو اپنے شوہر کی پلیٹ میں بائیں جانب رکھ دیا، ٹھیک اسی جگہ جہاں پر پہلے اس کا کانٹا رکھا ہوا تھا۔ پھر وہ بیٹھ گئی، اس کے بعد اس کا شوہر بھی بیٹھتا ہے، وہ اخبار پڑھنا ختم کرتا ہے اور اسے موڑ کر رکھ دیتا ہے۔

میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس نے ویٹر سے نیا کانٹا لانے کو کیوں نہیں کہا؟ کیا اسے کانٹا نیچے گرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟ کیا اس کانٹے کو استعمال کرنے میں اسے کوئی برائی نظر نہیں آئی؟ چاہے وہ گندا ہی کیوں نہ ہو؟ اس نے اسے وہیں کیوں نہیں رہنے دیا جہاں وہ تھا، اپنی خود کی پلیٹ میں ؟ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو چاندی کے سامان کا ٹکڑا یا کھانا بھی زمین پر گر جائے تو بھی پرواہ نہیں کرتے۔ امریکہ میں نوجوان لوگ ایک خیالی پانچ سیکنڈ کا اصول مانتے ہیں جس کے مطابق اگر کوئی چیز (سینڈوچ کا ٹکڑا) زمین پر گر جائے اور اسے پانچ سیکنڈ گذرنے سے پہلے ہی اٹھا لیا جائے تو اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ کسی چیز کو گندا ہونے میں یا اس میں جراثیم پیدا ہونے یا جو بھی اثر پڑنا ہو اس میں پانچ سیکنڈ سے زیادہ ہی وقت لگتا ہے۔ لیکن یہ عورت اس اصول میں بالکل یقین نہیں رکھتی ہے۔ کیونکہ اس نے کانٹا اٹھانے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ یہ کانٹا اس کے لیے صاف نہیں ہے لیکن شوہر کے لیے ہے۔ کیا اس کا شوہر کم احتیاط پسند ہے؟ یا یہ برسوں کی صحبت کا نتیجہ ہے جس سے وہ جانتی ہے اسے سب کچھ ہضم ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ پتھر بھی۔ یا یہ بدلا لینے کے اس کے بہت سے طریقوں میں سے محض ایک معمولی طریقہ ہے؟ جب وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے تو کیا وہ روز صبح اس کی کافی میں تھوکتی بھی ہے؟

میں نے کھانے کی کچھ دوسری میزوں پر ایک اچٹتی نظر ڈالی، کسی بھی کھانے والے کی اس پر توجہ نہیں گئی اور نہ ہی مالکن یا ویٹر کی۔ اس وقت ایک لائق، بہت چھوٹا بچہ ان کے کے لیے بریڈ کی ایک ٹوکری، کچھ زیتون اور مینو لے کر آ رہا ہے۔ دوسرا جوڑا آخر کار مصوری دیکھنا بند کرتا ہے اور کھانے کی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ وہ مینو اٹھاتے ہیں ، اسے کھولتے ہیں اور پڑھنا شروع کر دیتے ہیں ۔

٭٭٭





This entry was posted in مانگے کا اجالا and tagged رضقان الحق, قیوم منزو. Bookmark the permalink.
Post navigation


رضوان الحق


چونیّ


دوپہر میں سوتے سوتے اچانک طالب صاحب کی آنکھ کھلی تو ان پر دیر تک اسی خواب کا تصرف رہا جو انھوں نے سوتے میں دیکھا تھا- اس خواب میں ان کے ماضی کے کئ حسین در وا ہو گئے تھے- جب اس خواب کا تصرف کچھ کم ہوا تو وہ اپنی پرانی چیزوں میں کچھ تلاش کرنے لگے- آج برسوں بعد انھوں نے الماری کے اس خانے کو کھولا تھا- اس میں ان کی کئ یادگار چیزیں، مثلا" تعلیمی اسناد، دوستوں کے دیے ہو‎ۓ کچھ تحفے، داغ فرقت دے چکی بیوی کی کچھ تصویریں اور ایک معشوق کے چند خطوط وغیرہ تھے – بڑی دیر تک وہ انہیں چیزوں کو دیکھتے رہے- اچانک انھیں الماری میں چار آنے کا ایک سکّہ پڑا مل گیا – انھوں نے سوچا ان پرانی اور دنیا کے لئے بے کار ہو چکی چیزوں میں یہ سکّہ رائج الوقت کہاں سے آ گیا؟ اور انھوں نے اسے اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لیا – اس کے بعد ایک بار پھر وہ پورے انہماک سے انہیں اسباب میں محو ہو گئے – کچھ دیر بعد ان کے پوتے لطیف نے آ کر کہا –


"دادا جی! مجھے پیسے دے دیجئے، چاکلیٹ لوں گا –"

"انھوں نے دو روپے نکل کر اسے دیے اور وہ روپئے لے کر جانے لگا کہ اچانک انھیں چار آنے کا وہ سکّہ بھی یاد آ یا اور اسے نکال کر وہ بولے –

"بیٹے لطیف،لو یہ بھی رکھ لو-"

لطیف نے پہلے تو ہاتھ بڑھا کر سکّہ لے لیا لیکن جب اس نے دیکھا وہ سکّہ چار آنے کا ہے، تو اسے واپس کرتے ہوئے بولا-

"دادا جی، اس کا کیا کروں؟ اب چار آنے کا کچھ نہیں ملتا، اسے تو آپ ہی رکھ لیجئے –"

"یہ کہہ کر وہ سکّہ اپنے دادا کے ہاتھ میں دے کر باہر چلا گیا- طالب صاحب حیران کھڑے کبھی چونی اور کبھی اپنے پوتے کو دیکھتے رہ گئے- پھر انھوں نے سکّے کو اپنی جیب میں واپس

رکھ لیا-

طالب صاحب چار آنے کی معنویت کے بارے میں سوچنے لگے- انھیں محسوس ہوا لطیف نے جس طرح چونی لینے سے انکار کیا ہے، یہ بدتمیزی ہے- نہیں تو چار آنے ابھی اتنے بے وقعت نہیں ہوئے ہیں- کچھ دیر تک وہ چار آنے کے بارے میں سوچتے رہے- انھیں محسوس ہوا یہ چار آنے اپنے پاس رکھنا ٹھیک نہیں ہے اور وہ اسے خرچ کرنے کی غرض سے گھر سے باہر نکل پڑے –
باہر نکل کر انھوں نے سب سے پہلے پھل خریدے جو دس روپے کے ہوئے- جیب سے پیسے نکالے تو چار آنے کا وہ سکّہ بھی نکل آیا جسے بڑ ی بے دلی سے انھوں نے جیب میں واپس رکھا – اس کے بعد ایک چھوٹے سے ہوٹل میں جا کر چاۓ پی، جس کے تین روپے ہوئے- وہاں بھی بات نہیں بنی، تھوڑی دور چلنے پر ایک پان کی دکان نظر آئی – انھوں نے سوچا چلو پان کھاتا ہوں، ممکن ہے اب پان ایک روپیہ پچیس پیسہ کا ہو گیا ہو تو چونی دے دوں گا- پان کھانے کے بعد جب انھوں نے قیمت پوچھی تو اس نے دو روپے بتائی - طالب صاحب نے پیسے نکالے تو چار آنے کا وہ سکّہ پھر نکل آیا اور انھوں نے جھنجلا کر اسے جیب میں پھر واپس رکھ لیا- پان کھانے کے بعد انھیں یاد آیا کہ ایک سگریٹ ایک روپیہ پچیس پیسے کی ملتی ہے- اس لیے دکان دار سے سگریٹ دینے کو کہا اور ایک روپیہ پچیس پیسے نکال کر اسے دینے لگے تو دکان دار نے کہا-

"دو روپیے ہوئے صاحب-"
یہ سنتے ہی انھیں لگا جیسے چونی کا وہ سکّہ بچھو بن کر ڈسنے جا رہا ہو- انھوں نے اسے ہاتھ سے جھٹک دیا اور دو روپیے دکان دار کو دے دیے – اس کے بعد کچھ سوچ کر چار آنے کے اس سکے کو پھر تلاش کر کے جیب میں رکھ لیا اور گھر واپس آ گئے – اگلے کئی روز تک وہ چونی خرچ کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلتے لیکن ناکام ہو کر لوٹ آتے- چار آنے کا وہ سکّہ انھیں ہر وقت بے چین کیے رہتا اور گھر میں بیٹھنے نہ دیتا- انھیں کچھ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے چار آنے کے اس سکّے پر آسیب سا آ گیا ہو- اس لیے وہ سوچ رہے تھے اسے جلد سے جلد خرچ کر ڈالنے میں ہی عافیت ہے- وہ گھر سے نہ جانے کیا کیا منصوبے بنا کر نکلتے، کہ اس مد میں خرچ کر دونگا اور اگر اس میں نہ بھی خرچ ہو سکے تو اس مد میں ضرور ہی خرچ ہو جائیں گے لیکن وہ چار آنے خرچ نہ ہو سکے، اس چونی کو خرچ کرنے کی کوشش میں انھوں نے نہ جانے کتنے روپیے خرچ کر دیے-
ایک دن وہ بہت اداس بیٹھے چار آنے کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ اچانک انھیں خیال آیا، میں پچھلے کئی دنوں سے اتنا پریشان ہوں لیکن میرے بیٹے یا بہو نے میری خیریت تک نہیں پوچھی اور اب تو لطیف بھی مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا- اب بیٹا تجارت کے سلسلے میں بھی مجھ سے کبھی مشوره نہیں لیتا- سب کچھ اپنی مرضی سے کرتا ہے- کیا اب اس کے دل میں میری اہمیت نہیں رہی؟ کیا میں بے معنی ہو چکا ہوں اور شاید ان پر بوجھ بھی- یہ سوچ سوچ کر ان کا دل گھبرانے لگا- جب ان کی پریشانی زیادہ بڑھنے لگی تو انھوں نے اس طرف سے اپنا دھیان ہٹانے کے لیے لطیف کو پکارا-
"بیٹا لطیف!"
لطیف باہر سے دوڑتا ہوا اندر آیا-
"جی،دادا جی-"
"کیا کر رہے تھے؟"
"باہر کھیل رہا تھا-"
"چلو میں بھی تمہارے ساتھ کھیلتا ہوں-"
"ہا ہا... ہا ہا.... ہی ہی-"
لطیف نے بہت تیز قہقہہ لگایا- طالب صاحب حیران و پریشان ہو گئے کہ اس میں اتنی تیز ہنسنے کی کیا بات ہے؟ آخر کار ان سے رہا نہ گیا اور انھوں نے پوچھا-
"کیا ہوا؟اتنی زور سے ہنس کیوں رہے ہو؟"
"آپ میرے ساتھ کیسے کھل سکتے ہیں؟ میں اتنی تیز دوڑتا ہوں اور آپ اتنی دھیرے دھیرے چلتے ہیں-"
یہ کہہ کر لطیف تیزی سے دوڑتا ہوا چلا گیا-
"معاف کرنا بیٹا! مجھے یاد نہیں رہا کہ اب میں تمھارے ساتھ کھیلنے کے لایق نہیں رہا- اچھا جاؤ، تم اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلو-"
لیکن لطیف ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہاں سے جا چکا تھا- اس واقعے کے بعد وہ اور بھی بے چین رہنے لگے-
رات میں انھیں خیال آیا کے بہت دنوں سے بیٹی سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے- شاید اس سے بات کرنے میں کچھ راحت ملے، اور وہ باہر پی سی او پر اپنی بیٹی سے بات کرنے چلے گئے- انھوں نے راستے میں سوچا کچھ دن کے لیے اسے گھر بلا لیتا ہوں، طبیعت بہل جاۓ گی- فون پر ان کی بیٹی نے اپنے بچوں کی پڑھائی کی وجہ سے گھر نہ آ سکنے کی مجبوری بتائی- فون کرنے کے بعد جب انھوں نے بل دیکھا تو تیس روپیے چوبیس پیسے ہوئے تھے. انھوں نے تیس روپیے نکالے اور جلدی سے وہ چونی بھی دینے لگے تو پی سی او والے نے کہا-
"اسے رہنے دیجیے – اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے-"
"رہنے کیوں دیں؟جب پورے پیسے ہیں تو کیوں نہ دوں؟"
"اب فالتو چیزوں کو جن کی کوئی اہمیت نہ ہو اسے اپنے پاس رکھ کر کوئی اپنا بوجھ کیوں بڑھاۓ- اب اسے کون پوچھتا ہے؟"
"تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے؟ میرے بچے ہیں، بہو ہے، پوتا ہے، نواسے ہیں- میرا اپنا گھر ہے، تجارت ہے- میں کسی پر بوجھ نہیں ہوں- میں نے زندگی میں بہت کمایا ہے- اور اب اپنی تجارت اپنے بیٹے کو سونپ دی ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں فالتو چیز ہو گیا ہوں-"
"آپ بھی بات کا بتنگڑ بنا رہے ہیں- میں نے فالتو چیز آپ کو نہیں چونی کو کہا تھا-"
اور اس طرح طالب صاحب پھر واپس چل دیے اور وہ چونی انہیں کے پاس رہ گئی- راستے میں وہ بڑبڑاتے رہے -
"ہوونہہ چونی کو کہا ہے- جیسے میں کچھ سمجھتا ہی نہیں، جھوٹے کہیں کے- میرا کیا ہے؟ کچھ دن کی زندگی اور ہے- کسی نہ کسی طرح گذر ہی جاۓ گی- اللہ نے چاہا تو مجھ سے بھی بر ا حشر ہوگا ان حرامزادوں کا-"
رات میں انھیں دیر تک نیند نہ آ سکی- کروٹیں بدلتے رہے اور سوچتے رہے، اپنے ماضی کے بارے میں، ابتداۓ جوانی کے بارے میں- جب گاؤں میں ان کی زمین داری چلتی تھی- زمین داری ختم ہونے پر انھوں نے شہر میں آ کر اپنا کاروبار شروع کیا تھا-
" صاحب یو کھیت جوت ڈالی تو چونی کا کام ہوئی جئی –"
"ابے لکھو جانتا ہے چونی میں ایک بار کے کھانے کا ایک ہفتے کا غلہ ملتا ہے، اور تو بس ایک دن میں چونی کا کام کر لینا چاہتا ہے؟ تو اپنا کام کر اور یہ حساب کتاب مجھ پر چھوڑ- جب چار آنے پورے ہو جائیں گے تو دے دونگا-"
پاس والے قصبے کی خانم بائی کی کیا دھومیں تھیں، اس کے مجرے کی دور دور تک شہرت تھی – اسکول سے جب میں پہلی دفعہ مجرا سننے گیا تھا تو چار آنے ہی دیے تھے-
وہ بھی کیا زمانہ تھا- کیا شان تھی میری بھی اور چونی کی بھی- جدھر سے گذرتا تھا، لوگ جھک جھک کر سلام کرتے تھے لیکن اب نہ کوئی مجھے پوچھتا ہے اور نہ چونی کو- یا الله تو کیوں مجھے ایسی ذلّت بھری زندگی جینے پر مجبور کر رہا ہے- اس سے تو اچھا تھا مجھے موت ہی آ جاتی- یہ زندگی بھی کوئی زندگی ہے؟ اور سرکار کو کیا ہو گیا ہے- جب چار آنے کی کوئی چیز ملتی ہی نہیں تو اسے جاری کیوں رکھا ہے؟ بند کیوں نہیں کر دیتی؟ وہ ضرور مجھے چڑانے کے لیے ہی اب چونی چلا رہی ہے-
چونی کی صحیح صورت حال کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے وہ ایک دن ریزرو بنک پہنچ گئے اور وہاں ایک بڑے بابو سے ملے-
"اب چونی چلتی ہے یا نہیں؟"
"کبھی آسمان کی طرف غور سے دیکھا ہے؟"
"ہاں دیکھا ہے-"
"کیسا دکھتا ہے؟"
"نیلا، زمین کو چاروں طرف سے ڈھکے ہوئے -"
"شاید آپ کو معلوم نہیں- آسمان جیسی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہوتا، اور نہ اس کا کوئی رنگ ہوتا ہے- صرف ایک خلا ہوتا ہے-"
"وہ تو مجھے معلوم ہے-"
"اسی طرح بہت سی چیزیں محسوس ہوتی ہیں، دکھائی بھی دیتی ہیں، لیکن ہوتی نہیں ہیں-"
"جیسے؟"
"کبھی آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا ہے؟"
"کیا مطلب؟ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟"
"بات بہت صاف ہے- آئینہ دیکھنے والے کو لگتا ہے کہ وہ اس آئینے میں موجود ہے لیکن در حقیقت آئینے میں وہ ہوتا نہیں ہے- اس لیے آنکھوں دیکھی پر کبھی اعتبار نہ کریں، سمجھ گئے؟"
"طالب صاحب نے جب کوئی جواب نہیں دیا تو اس نے پھر پوچھا-
"کبھی ریل گاڑی سے سفر کیا ہے؟"
"ہاں کیا ہے-"
"کھڑکی سے باہر پیڑوں کو تیز رفتار سے بھاگتے ہوئے دیکھا ہے؟"
"ہاں دیکھا ہے-"
"وہ بھی بھاگتے نہیں ہیں-ساکت کھڑے ہوتے ہیں- سمجھ گئے یا اور سمجھاؤں؟ گرمیوں میں کسی صحرا میں گئے ہیں؟"
"بس... بس با با بس، سمجھ گیا-"
"پھر آپ تشریف لے جا سکتے ہیں، میں آپ کی طرح بے کار نہیں ہوں، میرے پاس بہت کام ہیں-"
مجبور اور خفیف ہو کر طالب صاحب وہاں سے واپس چلے آے - وہ ایک سیدھا سادہ سوال لے کر وہاں گئے تھے- لیکن اس بابو نے اس کا جواب دینے کے بجاۓ ایسا سمجھا یا کہ وہ کئی اور سوالوں میں مبتلا ہو گئے-اس سب کا انجام یہ ہوا کہ وہ ہر چیز کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے- وہ کچھ بھی دیکھتے تو سوچتے، پتہ نہیں یہ چیز حقیقت میں ہے بھی یا صرف اس کے وجود کا وہم ہے؟ کہتے ہیں کہ یہ زمین گھوم رہی ہے- اس لیے اس پر موجود ہر شے بھی گھوم رہی ہوگی- پھر یہ زمین اور ساری اشیا ٹھہری ہوئ کیوں ہیں؟ معلوم نہیں یہ گھر، یہ کمرہ، یہ ساز و سامان، ان سب کی حقیقت کیا ہے؟خود میں بھی ہوں یا نہیں ہوں؟کہیں میں بھی تو بھاگتے ہوئے پیڑوں کی طرح اور نیلے آسمان کی طرح تو نہیں ہوں؟ اب اس کا فیصلہ کیسے ہو؟میں خود اس کا فیصلہ کر نہیں سکتا اور دوسروں کا ویسے بھی کیااعتبار؟ اگر دوسرے لوگ قابل اعتبارہوں بھی تو اس بات کا کیا اعتبارکہ ان کی آنکھیں دھوکا نہیں کھا رہی ہیں؟اس بابو نے کہا تھا آنکھوں دیکھی پر اعتبارنہ کرنا- بات تو ٹھیک کہہ رہا تھا لیکن کس کا اعتبارکروں؟
وہ انھیں خیالوں میں گم تھے کہ اندر سے بہو کی آواز آئی -
"پا پا کھانا لگا دوں؟
لیکن انھوں نے اس کی آواز پر کوئی دھیان نہیں دیا- کوئی جواب نہ پا کر وہ ان کے کمرے میں آ گئی- انھیں سر پکڑ کر بیٹھے دیکھ کر بولی-
"کیا ہوا پاپا؟ کیا سر میں درد ہے؟ تیل لگا دوں؟"
"تم...؟ کون ہو تم؟ کیا چاہتی ہو؟"
"پاپا میں ہوں، ادھر دیکھیے، مجھے نہیں پہچانا؟ میں آپ کی بہو ہوں- بھوک نہیں لگی؟ کھانا لگا دوں؟"
"وہ تو میں دیکھ رہا ہوں- لیکن آنکھوں دیکھی پر مجھے یقین نہیں -"
"پاپا یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ اگر اپنی آنکھوں دیکھی پر یقین نہیں تو پھر کس پر یقین ہے؟"
"مجھے کسی پر یقین نہیں – یہ سب فریب ہے، مایا ہے- لیکن یہ یاد رکھنا میں ابھی زندہ ہوں- رکو، میں ابھی تمھیں اپنے ہونے کا ثبوت دیے دیتا ہوں-"
یہ کہہ کر وہ کمرے کا سامان اٹھا کر پھینکنے لگے، پانی سے بھرا گلاس پھینک دیا- اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے، شیشے کی کچھ کرچیاں ان کے پیروں سے ٹکرائیں جس سے ان کے پیر سے خون بہنے لگا- اس کے بعد بولے-
"دیکھو اگر میں یہاں موجود نہ ہوتا تو یہ سب کیسے کرتا؟"
بہو نے گھبرا کر اپنے شوہر کو فون کر دیا- تھوڑی دیر میں طالب صاحب کا بیٹا آ گیا- اس نے انھیں ہسپتال لے جاکر بھرتی کرا دیا- وہاں ان کی پوری جانچ ہوئ، کوئی خاص بیماری نہیں نکلی، ڈاکٹر نے بتایا ان کی صحیح دیکھ بھال کی ضرورت ہے- صحیح وقت پر کھانا اور سونا ہونا چاہیے- جہاں تک ممکن ہو ان کو تنہا مت چھوڑئیے، کچھ دوائیں بھی لکھ دیں، شام کو وہ گھر واپس آ گئے –
ڈاکٹر نے نیند کی گولیاں بھی دے دی تھیں، اس لیے وہ شام کو ہی سو گئیاور رات بھر سوتے رہے- صبح جب نیند سے جاگیتو سوتے سوتے اتنا تھک چکے تھے کہ کچھ دیر جاگنے کے بعد بھی ان کے پورے جسم میں کہیں کوئی جنبش نہ ہو سکی- رات بھر وہ عجیب سے خواب دیکھتے رہے تھے- اس لیے دماغ بھی صحیح سے کام نہیں کر رہا تھا- انھیں نہ وقت کا صحیح احساس تھا نہ مقام کا- وہ آنکھیں بند کیے نیم خوابی کی کیفیت میں مبتلا رہے- اتنے میں انھیں اپنے پیر پر کچھ رینگتا ہوا محسوس ہوا- جب غور کیا تو محسوس ہوا کہ چیونٹیاں رینگ رہی ہیں- وہ پیر کے اس حصّے کی طرف جا رہی تھیں جہاں انھیں چوٹ لگی تھی- ان کے ذہن میں اچانک سوال ابھرا، کہیں میں مر تو نہیں گیا ہوں؟ جو چیونٹیاں اپنا حصّہ لینے آ گئی ہوں؟ ورنہ چیونٹیاں زندوں کو تو ایسے نہیں چاٹتی ہیں... میں اس وقت پتہ نہیں کہاں ہوں؟ قبر میں ہوں یا ایسے ہی کہیں پڑا سڑرہا ہوں؟ لیکن میں سوچ کیسے رہا ہوں؟ تو کیا ابھی روح جسم میں باقی ہے؟یا میں خدا کے سامنے پیش کیا جا چکا ہوں اور جنت یا جہنم میں ہوں؟ وہ ابھی اسی فکر میں تھے کہ ان کی بہو نے آ کر کہا-
''پاپا چاۓ لائی ہوں-"
"کون ہو تم؟ میں جنت میں ہوں یا جہنم میں؟"
یہ سنتے ہی بہو گھبرا گئی، اس کے ہاتھ سے چاۓ کی پیالی چھٹ گئی اور تھوڑی سی چاۓ طالب صاحب کے اوپر بھی گر گئی- گرم گرم چاۓ گرتے ہی ان کی نیم خوابی کی کیفیت ٹوٹ گئی اور وہ ایک دم سے گھبرا کر اٹھ بیٹھے- جب تھوڑی دیر میں ان کی طبیعت معمول پر آئی تو بڑی ندامت کے ساتھ بولے –
"ارے بیٹی تم ہو، معاف کرنا میں ایک خوف ناک خواب میں مبتلا تھا- کیا بات ہے بہو؟ آج بہت جلدی چاۓ لے کر آ گئیں؟"
"جلدی کہاں وقت سے ہی تو آئ ہوں، وہ چاۓ تو گر گئی میں دوسری چاۓ لے کر آتی ہوں-"
بہو کے جاتے ہی وہ ایک بار پھر اسی خواب کے بارے میں سوچنے لگے اور پھر ان پر ایک اضطرابی کیفیت طاری ہونے لگی- تھوڑی دیر میں بہو چاۓ لے کر آ گئی-
"یہ لیجیے پاپا اور دوا بھی لائی ہوں- کھا لیجیے، جلدی ٹھیک ہو جائیں گے-"
"میں نہیں مانتا- تم کیسے ثابت کر سکتی ہو کہ یہ دوا ہی ہے- میں تم لوگوں کو خوب سمجھتا ہوں! یہ مت سمجھنا کہ میں کسی کام کے لایق نہیں رہا- میں ابھی سب کچھ کر سکتا ہوں- یہ گھر میرا ہے- تجارت میری ہے- یاد رکھنا، سچائی وہی نہیں ہوتی جو دکھائی دیتی ہے-"
اتنے میں ان کا بیٹا بھی آ گیا- اسے دیکھتے ہی وہ گرج پڑے -
"تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے؟ آئینے کا عکس، آب سراب، یا نیلا آسمان، میں حقیقت ہوں... حقیقت – میں کچھ بھی کر سکتا ہوں- یہ گھر میرا ہے، میں تمھیں اپنے گھر سے نکال دوں گا- تم سب نے مجھے مردہ سمجھ لیا ہے- میری بیٹی نے تو مجھے شادی ہوتے ہی بھلا دیا- اس نے کب سے میری خیریت تک معلوم نہیں کی، جیسے میں مر چکا ہوں-"
یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے- تھوڑی دیر تک رو لینے کے بعد ان کے دل کا غبار کم ہو گیا تو ان کی طبیعت کچھ ٹھیک ہوئ – کچھ دیر بعد ان کی بیٹی بھی آ گئی، جس سے دل اور بھی ہلکا ہو گیا- دوپہر میں طالب صاحب نے اپنی بہو کو پکارا-
"بہو... ذرا یہاںآنا-"
"جی!پاپا جی-"
"میں کل جب بیمار ہوا تھا... میری جیب میں چار آنے کا ایک سکّہ تھا- وہ کہاں ہے؟"
"ہاں ہاں... میرے پاس ہے، کیا پیسوں کی ضرورت ہے پاپا؟ کتنے پیسے چاہیے؟"
"نہیں... مجھے بس وہی چونی چاہیے – تم کون بڑی آیئں مجھے پیسے دینے والی-"
"وہ تو میں نے کہیں رکھ دی، ڈھوڈنی پڑے گی- چونی ہی تو تھی اس لیے میں نے ز یادہ توجہ نہیں دی-"
"تو ڈھونڈو مجھے وہ سکّہ ابھی چاہیے، جاؤ ڈھونڈ کر لاؤ –"
شام کو وہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کی بہو نے آ کر کہا-
"پا پا آپ کے لیے چاۓ لائی ہوں اور آپ کی وہ چونی بھی مل گئی-"
"کہاں ہے؟ لاؤ دیکھوں - جلدی لاؤ، بہت اچھا ہوا- ٹھیک ہے اب تم جاؤ -"
بہو کے جاتے ہی وہ بے تحاشا سکے کو چوم نے لگے اور اس سے بولے-
"کہاں کھو گئے تھے میرے دوست؟ ایک تم ہی تو ہو جو میرا درد سمجھتے ہو-اگر تم بھی چلے گئے تو میں کیسے زندہ رہوں گا؟"
رات میں وہ ٹھیک سے سو نہ سکے، صبح وہ عام طور پر بستر پر دیر تک پڑے رہتے تھے، اخبار بہت صبح آ جاتا تھا، وہ اسے اٹھانے کبھی نہ جاتے تھے لیکن اس صبح وہ اخبار والے کی راہ تکتے رہی- جیسے ہی اخبار آیا، انھوں نے لپک کر اسے اٹھا لیا – صفحہ ا ول پر چو کھٹے میں ایک مختصر لیکن نمایاں خبر تھی-
"حکومت نے چونی بند کرنے کا فیصلہ کر لیا-"


جمعرات، 11 جون، 2020


ایک بار عتیق اللہ صاحب سے بات ہو رہی تھی انہوں نے کہا کہ آپ علامتی افسانے لکھیے، استعا راتی افسانے لکھیے، تجریدی افسانے لکھیے، یا جادوئی حقیقت نگاری کا استعمال کریے، مابعد الطبیعاتی افسانے لکھیے انھیں سب سے افسانے میں مصنف کی انفرادیت قائم ہوتی ہے لیکن یہ سارے تجربے کرنے کا اسی کو حق ہے جو کلاسیکی افسانہ لکھنے پر قادر ہو، نئے تجربے کرنے کا اسی کو حق ہے جو روایتی افسانہ لکھنے میں پوری مہارت رکھتا ہو- اگر آپ روایتی افسانہ لکھنے پر قادر نہیں ہیں، تو ان تکنیکوں کا اچھا استعمال ممکن ہی نہیں ہے-

جمعہ، 29 مئی، 2020

اکیسویں صدی کے خرابے میں داغ کی شاعری کی معنویت
اکیسویں صدی کی شناخت کیا ہے؟ یہ ایک مشکل سوال ہے، کیا اس کی کوئی ایک شناخت ممکن ہے؟ چلو ایک شناخت نہ سہی ، کیا چند ایسی صفات ہو سکتی ہیں؟ جن سے اکیسویں صدی عبارت ہے؟ یا جن سے اکیسویں صدی کی شناخت ممکن ہے- اگر ایسا ممکن ہو سکے تو اس میں داغ کی شاعری کی معنویت کا تعین بھی ممکن ہو سکتا ہے- ظاہر ہے میں کوئی نجومی نہیں ہوں، اور نہ ہی نجوم میں میری کوئی دلچسپی ہے، میں جو بھی معروضا ت پیش کروںگا ، ان کی بنیاد اب تک گزر چکی تقریباً ڈیڑھ دہائی کے تجربات پر مبنی ہوں گے – میرے خیال سے اکیسویں صدی کی ان صفات میں جو اب تک زیادہ نمایاں رہی ہیں ، ان میں سے ایک ہے سرمایہ داری نظام اور کھلا بازار، جس نے انسانی حرص و ہوس کی ساری حدیں توڑ دی ہیں، حد سے بڑھی ہوئی صارفیت سے استعمال کرو اور بھول جاؤ ، کا رویہ انسانی سرشت میں شامل ہوتا جا رہا ہے، اس صورت حال میں انسانی رشتے بھی پامال ہو کر رہ گئے ہیں، اور اس کی جگہ ایک قسم کی خود غرضی نے لے لی ہے- اکیسویں صدی کی ایک اہم صفت تکنیک کا غیر معمولی اور کئی دفعہ غیر ضروری استعمال کا بڑھ نا ہے، میں تکنیک کے خلاف تو نہیں ہوں، لیکن اگر تکنیک کے ساتھ ساتھ انسان کا فکری ارتقا نہ ہو تو نہ جانے کتنے توہم فتنہ بن کر سماج میں پھیل جاتے ہیں، تکنیک کے ساتھ ساتھ جہاں فکر و خیال کا فروغ ہونا چاہیے تھا، اس معاملے میں ہم بات بات پر پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں، ہم سائنسی مزاج بھی نہیں اپنا سکے - تکنیک کے ساتھ فراخ دلی کا فروغ ہونا تھا، لیکن ہم تکنیک کا استمال تنگ نظری پھیلانے میں کر رہے ہے، آج ہم لوگ گڑے مردے اکھاڑ رہے ہیں جو نفرت کا باعث بن رہے ہیں، آج کل تکنیک کا ایک اور استعمال بہت بڑھ گیا ہے وہ یہ کہ ہر کام میں شارٹ کٹ تلاش کیا جا رہا ہے ، در حقیقت تکنیک کا تو کام ہی ہے کہ وہ انسان کو آسانی فراہم کرے، لیکن جب یہ آسانیاں انسانی اعلی قدریں کی شرط پر حاصل ہوں تو یہ لمحہ فکریہ بن جاتا ہے، انسانی ارتقه انسان کی بے لوث خدمات، قربانی اور انسانی جنون کا نتیجہ ہے، لیکن اب یہ ساری قدریں قصّۂ پارینہ بنتی جا رہی ہیں- بس ایک آدھ ستارے کہیں کہیں جگمگہ رہے ہیں، اروم شرمیلہ بھی اکیسویں صدی کی ہی دیں ہیں، جنھوں نے قربانی کی ایسی عظیم مثال پیش کی ہے، کہ تاریخ میں ایسی مثالیں کہیں نظر نہیں آتیں، لیکن وہ اکیسویں صدی کی نمائندہ آواز نہیں ایک کرشمہ ہیں- موضوع کے لحاظ سے ایک سوال یہ آٹھ سکتا ہے کہ اکیسویں صدی تو ٹھیک ہے لیکن اکیسویں صدی کے خرابے میں کیوں؟ تو اس سلسلے میں بس اتنا عرض کرنا ہے کہ ممکن ہے ، اکیسویں صدی میں کچھ لوگ بہت کامیاب بھی ہوں ، لیکن مجموعی طور پر یہ انسان اور انسانیت کے لیے یہ کوئی اچھی صورت حال نہیں ہے، اب ایسے میں اکیسویں صدی کی جو تصویر ابھرتی ہے اسے خرابہ نہ کہیں تو کیا کہیں؟ اکیسویں صدی کی اس تصویر کے بعد میں سمجھتا ہوں، داغ کی شاعری کی معنویت کی بہت زیادہ توقع نہیں رہ جاتی ہیں، لیکن پھر بھی ہمیں اس کا معروضی جائزہ لینا چاہیے ہے، پہلے سے نظریہ نہیں بنا لینا چاہیے - داغ دہلوی اور امیر مینائی کے بارے میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ امیر مینائی نے داغ سے عرض کیا کہ ہم دونوں ایک ہی زمین میں، ایک ہی زبان میں، ایک ہی قوافی میں اور ایک سے مضامین پر شعر کہتے ہیں، پھر میری غزلوں میں تمہارے جیسا چٹخارہ کیوں نہیں آتا؟ داغ نے پوچھا کہ مولانا کبھی کسی طوائف سے عشق فرمایا ہے؟ امیر نے کہا - لا حول ولا قووتہ - داغ بولے جورو کا عاشق ہی غزل کہہ سکتا ہے، جیسی آپ کہتے ہیں- میں اس بات کا پوری طرح سے تو قائل نہیں ہوں، کہ کسی خاص طرح کی شاعری کے لیے کسی خاص طرح کے تجربے سے گزرنا ضروری ہے، یہ تو اس کے تخلیقی ذہن رسا پر منحصر ہے کہ وہ کس تجربے کو کس طرح بیان کرتا ہے، لیکن اس بات سے ایک بات واضح ہے، کہ داغ کی شاعری میں ایک مخصوص قسم کا چٹخارہ پایا جاتا ہے، اور یہ چٹخارہ ایسا ہے کہ امیر مینائی بھی اپنی شاعری میں لانا چاہتے ہیں. جہاں تک سوال اکیسویں صدی میں داغ دہلوی کی شاعری کی معنویت کا ہے تو سب سے پہلے یہ سوال اٹھتا ہے کس کے لیے معنویت ؟ ان لوگوں کے لیے داغ کی معنویت جن کے لیے اردو شاعری کا مطالعہ ایک قسم کے پیشہ کی طرح ہے، چاہے وہ اردو درس و تدریس سے وابستہ ہوں، یا وہ اردو درس و تدریس سے وابستہ نہ ہوں لیکن اردو شاعری کا مطالعہ پیشہ ور انداز سے کرتے ہیں، چاہے وہ اردو شاعری کی تنقید و تحقیق سے منسلک ہوں یا وہ خود شاعر ہوں – اس طرح وہ شاعری کا مطالعہ پیشہ ور انداز سے کرتے ہیں- ایسے لوگوں کے لیے داغ کی معنویت مسلم الثبوت ہے، کہ اردو شاعری اور خاص طور سے غزل کی کوئی بھی تاریخ داغ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی – پوری اردو شاعری کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو ایک شیڈ یقیناً ایسا ہے جو صرف داغ سے مخصوص ہے- معاملات عشق میں ایسی چھیڑ چھاڑ ، التفات کی ایسی کیفیتیں ایسی صاف شفّاف اور رواں زبان میں اور کہیں نہیں ہے- جب میں نے داغ کی ان صفات پر غور کیا کہ وہ اس طرح کی کفیات کیسے تخلیق کرتے ہیں؟ تو میری نظر سب سے پہلے داغ کے راوی پر ٹھہری، اردو شاعری میں اگر کوئی واضح دوسرا راوی نہ ہو تو عام طور پر اس کا راوی عاشق ہوتا ہے، اور بیشتر تیسرا شخص غائب راوی ہوتا ہے، لیکن اس سلسلے میں داغ نے جتنے تجربے کیے ہے، مجھے نہیں یاد آ رہا ہے کہ اردو میں کسی بھی دوسرے شاعر نے راوی کے لیکر اتنے تجربے کیے ہوں، اکیسویں صدی میں جب کہ صوتی و بصری میڈیا کا اتنا فروغ ہو رہا ہے یہ بات اور منی خیز ہو جاتی ہے- داغ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں- ہوتی ہے دیکھنے کے لیے آنکھ میں نگاہ دیکھو ... تمہاری آنکھ ہے ... میری نگاہ میں خیال یار یہ کہتا ہے مجھ سے خلوت میں تری رفیق بتا اور کون ہے ... میں ہوں؟ غیروں سے التفات پہ ٹوکا تو یہ کہا دنیا میں بات بھی نہ کریں کیا کسی سے ہم کیا کہا ... پھر تو کہوں... ہم نہیں سنتے تیری نہیں سنتے ... تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں میرا خیال ہے داغ کی معشوقہ جس طرح سے خود گویا ہے، اس سے قبل اردو شاعری میں معشوقہ خود کبھی بولتی ہوئ اس طرح نظر نہیں آئ - غزل میں ایسا مکالماتی انداز بھی کہیں نظر نہیں آتا، ایک آدھ شعر دوسرے شاعروں کے یہاں کبھی کبی مل جاتے ہیں لیکن اتنی بڑی تعداد میں اور ایسی زندگی سے بھری جسے ہم انگریزی میں لاۓو کہتے ہیں کہیں اور نظر نہیں اتی، اور یہ جو ہم داغ کی شاعری میں شوخی اور چھیڑ چھا ڑ کی بات کرتے ہیں، در اصل ان کا یہ اسلوب ان کے رونی نے تخلیق کیا ہے- ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو مکتبی ضرورت کے تحت داغ کا مطالعہ کرتے ہیں اور بیشتر نصابی ضرورت کے تحت ہی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کے لیے داغ کا مطالعہ کبھی ضروری ہے بھی اور کبھی ضروری نہیں بھی ہے، بہت سے کالجوں اور دانشگاہوں میں دا غ کی شاعری خاس طور سے غزلیں پڑھائی جاتی ہیں، اور بہت جگہ نہیں بھی پڑھائی جاتی ہیں، اگرہمیں اردو کے دس غزل گو شعرا کو شامل نصاب کرنا ہو تو داغ کو شامل کرنا کیا لازمی ہوگا؟ میرا خیال ہے کہ اگر داغ کو شامل کر لیا جاۓ تو بہتر ہوگا لیکن اگر نہ بھی کیا جائے تو داغ کے بغیر اردو غزل کا کاروبار بند بھی نہیں ہو جاےگا – اس کی وجہ یہ ہے کہ داغ جس کلاسیکی غزل کی نمائندگی کرتے ہیں ہم اس غزل کو عام طور پر غالب پر ختم مان لیتے ہیں، اس کے بعد ہم غزل میں نئے رجحانات کی بات کرتے ہیں، اس لیے داغ کی غزلوں کو کئی بار نمائندہ شعرا کے نصاب میں جگہ بنانا مشکل ہو جاتا ہے، لیکن اکیسویں صدی میں ایک بات داغ کی حمایت میں چلی جاتی ہے کہ اگر کلاسیکی شاعر کا تعارف کرانا ہے، اور طالب علم کم علم ہیں جو کہ اکثر ہوتے ہیں ، تو داغ معاون ہو سکتے ہیں، کیونکہ داغ تمام اہم کلاسیکی شاعر وں میں سب سے آسان شاعر ہیں، یہ آسانی ان کی زبان کی وجہ سے بھی ہے، اور ان میں جو تصورات پیش کیے گئے ہیں وہ بھی عام طور آسان ہیں، کلاسیکی شاعروں میں داغ کی شاعری بہت کم فارسی آمیز ہے، لیکن ان سب کے باوجود داغ کلاسیکی شاعری کی بھر پور نمائندگی کرتے ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ استاد ذوق کے شاگرد تھے، ساتھ ہی انھیں غالب مومن، ظفر اور شیفتہ وغیرہ شعرا کی صحبت کا بھی انھیں شرف حاصل تھا- ایسے لوگوں کے لیے داغ کی شاعری کی معنویت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ اکیسویں صدی کی اس خرابے نے انہیں اس بات کی کبھی مہلت نہ دی کہ وہ کبھی کبھی ادب کا مطالعہ کرتے رہیں، وہ کسی دوسرے پیشے میں ہیں اور اسی دنیا میں پوری طرح مصروف ہیں، بس کبھی کبھی انھیں اپنی تہذیبی شناخت کا مسلہ پریشان کرتا ہے، ان کی مادری زبان عام طور پر اردو ہے، یا مادری زبان اردو نہیں بھی ہے، لیکن اردو زبان و ادب نے انہیں متاثر تو کیا ہے ان کے دل میں اردو زبان و ادب کے لیے نیک جذبہ تو ہے لیکن روزگار زمانہ نے انہیں کبھی ایسی مہلت نہ دی کہ وہ کے لیے جو وقت درکار ہے ، اتنا وقت وہ دے سکیں، ایسے لوگ کبھی کبھی غزل یا قوالی سن لیتے ہیں، ایسے لوگوں کے پاس داغ کے چند اشعار کبھی نہ کبھی پہنچ ہی جاتے ہیں- مثلا داغ کے وہ اشعار جو ضرب المثل بن چکے ہیں- خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ ہندوستاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے رخ روشن کے آگے رکھ کے شمع وہ یہ کہتے ہیں ادھر جاتا ہے دیکھو یا ادھر آتا ہے پروانہ آخر میں بس ایک بات کہہ کر اپنی بات ختم کرنا چاہوںگا ایسے لوگوں کے لیے داغ کی معنویت بہت زیادہ ہے جو غزل گائیکی سن کر اپنی تہذیبی تشخص کی تسکین کرتے ہیں، غزل گائکوں کے لیے داغ ہمیشہ سے بہت بڑے شاعر رہے ہیں، کیونکہ داغ کی شاعری میں وہ تمام عناصر پاۓ جاتے ہیں جن کی توقع غزل گائیک کرتے ہیں، جیسے غزل میں غنایت بھر پور ہونی چاہیے ، گائیکی ایک مظاہرا تی فن ہے، اس لیے اسے سمجھنے میں زیادہ دقت نہیں آنی چاہیے، نہ زبان کی سطح پر نہ اس میں پیش کیے گئی تصور میں، داغ کی شاعری کی ایک اور خوبی ہے جس کی وجہ سے گائیک انہیں بہت پسند کرتے ہیں، وہ داغ کی شاعری کا راوی ہے، حب کسی شعر میں ایک سے زیادہ راوی ہوتے ہیں، یا مکالمہ ہوتے ہیں، تو غزل گائیکی میں ایک زندہ ماحول بن جاتا ہے، اسی خوبی کی وجہ سے داغ کو بیگم اختر، مہدی حسن، غلام علی، محمد رفیع تقریبا ہر اہم گلوکار نے گیا ہے، اس طرح سے بھی داغ کی معنویت میں اکیسویں صدی میں بھی قائم ہے، لیکن کیا کیا جاۓ کہ اکیسویں صدی میں ادب کی ہی جب اہمیت بہت کم رہ گئی ہے، تو داغ کی معنویت پر بھی سوال اٹھیں گے - Dr Rizvanul Haque, Assistant Professor, Urdu, Regional Institute of Education, Shyamla Hills, Bhopal-462013